حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، کفارہ کے متعلق بہت زیادہ سوالات ہیں اور بہت سارے افراد مثل بیمار، بوڑھے مرد، بوڑھی عورتیں، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی خواتین کو روزے نہ رکھنے اور سال کے اندر قضا ادا نہ کر سکنے کی صورت میں کفارہ دینا چاہئے۔
کفارہ کی بحث میں دقیق نکات ہیں۔ جنہیں بیان کیا جارہا ہے۔
نکتہ اول یہ ہے کہ سادات اپنا کفارہ فقیر سادات کو دے سکتے ہیں اور غیر سادات بھی اپنا کفارہ صرف غیر سادات کو دے سکتے ہیں اور اگر غیر سید فقیر سید کو کفارہ دینا چاہے تو اس میں ایک نکتہ ہے۔
کفارے اور فطرے میں فرق ہے۔ غیر سید اپنا فطرہ سید کو نہیں دے سکتا کیونکہ فطرہ زکات ہے لیکن کفارہ زکوۃ نہیں ہے۔ لیکن بعض مراجع تقلید نے اس میں بھی احتیاط کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر غیر سید کفارہ دینا چاہے تو وہ بنا بر احتیاط اپنا کفارہ فقیر سید کو نہ دے۔
یہاں پر ایک اور نکتہ یہ ہے کہ کفارہ کا مصرف فقیر ہے یعنی اس کے پیسے مسجد اور دوسرے نیک کاموں میں خرچ نہیں کر سکتے۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ کفارہ ان افراد کو نہیں دیا جا سکتا کہ جن کا نفقہ خرچ کفارہ دینے والے پر واجب ہو۔ اس کے علاوہ بھی مالی واجبات مثلا فطرہ، کفارہ اور خمس (سہم سادات و سہم امام) اس شخص کو نہیں دئے جا سکتے کہ جن کا نفقہ انسان پر واجب ہو۔ بطور مثال ایک شخص کہتا ہے کہ میرے بیٹے نے شادی کی ہوئی ہے اور اس کی ایک زندگی ہے اور وہ اس وقت فقیر بھی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے کفارے کی رقم سے چاول خرید کر بیٹے کو دے دوں۔ تو یہاں پر وہ شخص ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے بیٹے کا نفقہ اس پر واجب ہے۔ اسے چاہئے کہ وہ اپنی جیب سے اس کا خرچہ ادا کرے اور جب وہ اپنا کفارہ اپنے بیٹے کو دے گا تو گویا اس نے وہ پیسے دوبارہ اپنی جیب میں واپس پلٹا لئے ہیں کیونکہ اس نے وہ پیسے اسے دئے ہیں کہ جس کا نفقہ خود اس پر واجب ہے۔
ہاں! کفارہ دینے والا اپنے داماد کو کفارہ دے سکتا ہے کیونکہ اس پر داماد کا نفقہ واجب نہیں ہے۔ اسی طرح بیٹا بھی اپنا کفارہ والدین کو نہیں دے سکتا کیونکہ ان کا نفقہ اس پر واجب ہے۔ البتہ رشتہ داروں مثلاً بھائی، بہن وغیرہ کو کفارہ دیا جاسکتا ہے کیونکہ کفارہ دینے والے پر ان کا نفقہ واجب نہیں ہے اور یہ بہتر بھی ہے کہ اپنا کفارہ رشتہ داروں، ہمسایوں کو دیں اور یہ افراد دوسروں پر ترجیح بھی رکھتے ہیں۔